أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ وَلَا تَقْتُلُوٓا۟ أَوْلَٰدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْـًٔا كَبِيرًا ایک واقعہ بتلاتا ہوں میں ملکِ عرب کا وہ دور مدینے میں تھا پیغمبر رب کا ایک آدمی دربار نبوت میں تھا حاضر ایمان کی دولت ملے وہ پہلی تھا کافر اس شخص نے آقا سے کہا، اے میرے آقا جس وقت میں کافر تھا، تب ایک جرم کیا تھا جو میرا قبیلہ کہے وہ مانتا تھا میں بیٹی کی ولادت کو برا جانتا تھا میں گھر میں میرے پیدا ہوئے ایک پھول سی بچی پر میں نے اسے اپنے ہی بےعزتی سمجھی نفرت تھی مجھے اس سے میں بے زار تھا اس سے لیکن میری بیوی کو بہت پیار تھا اس سے اس بچی نے عزت مری ہر سمت اچھالی بیٹی کی ولادت پر مجھے ملتے تھے گالی بانہوں میں جھلایا، نہ تو کاندھے پہ بٹھایا میں نے نہ کبھی بیٹی کو سینے سے لگایا چاہت ہی نہیں تھی، کوئی الفت ہی نہیں تھی سینے میں مرے اس کی محبت ہی نہیں تھی معصوم وہ کرتی تھی محبت کے اشارے اور میں نے اسی کرب میں کچھ سال گزارے میں سوچتا رہتا تھا اسے مار ہی ڈالوں کھوئی ہوئی عزت کو پھر اک بار میں پالوں اک روز اسے لے کے نکل آیا میں گھر سے وہ بچی بہت خوش تھی مرے ساتھ سفر سے وہ توتلے انداز میں کرتی رہی باتیں سنتا رہا ہنس ہنس کے میں اس بچی کی باتیں فرمائشیں کرتی رہی وہ سارے سفر میں جاگی نہ محبت ہی مگر میرے جگر میں صحرا میں چلا آیا میں بستی سے نکل کر بچی بھی وہاں پہونچی مرے ساتھ ہی چل کر سنسان جگہ دیکھ کے سرشار ہوا میں اس بچی کی تدفین کو تیار ہوا میں تب میں نے یہ سوچا کہ یہیں قبر بنالوں اور آج ہی اس بچی سے چھٹکارا میں پالوں جب میں نے کیا ایک گڑھا کھودنا جاری اس وقت مرے ذہن پہ شیطان تھا طاری گرمی تھی بہت چور ہوا جب میں تھکن سے اس وقت پسینہ نکل آیا تھا بدن سے معصوم سی بچی کو ترس آگیا مجھ پر ہاتھوں ہی سے اس بچی نے سایہ کیا مجھ پر دم لینے کو بیٹھا جو ذرا مجھ سا کمینہ وه پونچھ رہی تھی مرے چہرے کا پسینہ رہ رہ کے مرا ہاتھ بٹاتی رہی وہ بھی اور قبر کی مٹی کو ہٹاتی رہی وہ بھی میرے نئے کیڑوں پہ لگی قبر کی مٹی جو صاف کئے جاتی تھی وہ ننھی سی بچی وہ پوچھتی جاتی تھی کہ بتلائیں ناں بابا کیا کھود رہے ہو مجھے سمجھائیں ناں بابا میں چپ رہا اب اس کو میں بتلاتا بھی کیسے وہ بوجھ تھی مجھ پر اسے سمجھاتا بھی کیسے تیار ہوئی قبر تو بچی کو اٹھایا اور میں نے اسی قبر میں بچی کو بٹھایا پہلے تو وہ خوش ہوتی رہی میرے عمل پر اور خود یہ الٹتی رہی وہ مٹی اٹھاکر پھر خوف سے رونے لگی چلانے لگی وہ ہاتھ اپنے بلانے لگی لہرانے لگی وہ آئے بابا مرے جان و جگر آپ پہ قربان بتلائیے کیوں آپ یہ بھاری ہے مری جان بس مجھ کو مرا جرم بتادیں مرے بابا پھر شوق سے جو چاہو سزا دیں مرے بابا روتی رہی چلاتی رہی پھول سی بچی جب تک بھی نظر آتی رہی پھول سی بچی اس دن مری رگ رگ میں تھا شیطان سمایا اس بچی پہ تھوڑا بھی مجھے رحم نہ آیا زندہ ہی اسے قبر میں دفنا دیا میں نے اک جان یہ یہ کیسا ستم ڈھا دیا میں نے وه آدمی روتا رہا یہ بات بتاکر اس شخص کے رخسار بھی اشکوں سے ہوئے تر اک درد سے سرکار کی آنکھیں ہوئیں پرنم دل تھام کے روتے رہے سرکار دوعالم سرکار کو جو بات رلائے وہ غلط ہے اللہ کو جو طیش دلائے وہ غلط ہے سرکار کو مانا ہے تو سرکار کی مانو ہر بات مرے سید ابرار کی مانو اک فرض ملا ہے تو اسے دل سے نبھا لو بیٹی کو محبت سے دل و جان سے پالو بیٹی پہ تو جنت کی ضمانت ہے خدا کی یہ ہوجھ نہیں ہے یہ امانت ہے خدا کی اللہ کبھی بیٹی سے نفرت نہ کرو تم قانون شریعت سے بغاوت نہ کرو تم دنیا میں تم آئے ہو تو واپس بھی ہے جانا محشر میں نہ پڑجائے تمہیں چہرہ چھپانا انس کی نظروں میں ہے وہ شخص دوانہ انس کی باتوں کو جو سمجھے گا فسانہ بیٹی کی محبت میں کہیں بھول نہ جانا بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ امت سے یہی کہہ گئے حسنین کے نانا بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ جنت میں یہی تمکو دلائے گی ٹھکانہ بینی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ بیٹی کی محبت سے مہکتا ہے گھرانہ بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ