تِرے وعدے کو، بتِ حیلہ جو نہ قرار ہے، نہ قیام ہے کبھی شام ہے، کبھی صبح ہے کبھی صبح ہے، کبھی شام ہے تِرے وعدے کو، بتِ حیلہ جو کبھی دیکھ تو سرِ رہ گزر کبھی دیکھ تو سرِ رہ گزر کہ تڑپتے کتنے ہیں خاک پر نہ چل ایسی چال تُو، فتنہ گر نہ چل ایسی چال تُو، فتنہ گر کوئی یہ بھی طرزِ خرام ہے تِرے وعدے کو، بتِ حیلہ جو وہ ستم سے ہاتھ... وہ ستم سے ہاتھ اٹھائے کیوں وہ کسی کا دل نہ دکھائے کیوں کوئی اِس میں مر ہی نہ جائے کیوں کوئی اِس میں مر ہی نہ جائے کیوں اُسے اپنے کام سے کام ہے تِرے وعدے کو، بتِ حیلہ جو دل و دیں کا... دل و دیں کا جس کو نہ پاس ہو یہی نا مراد ہے، دیکھ لو جسے داغؔ کہتے ہیں، اے بتو جسے داغؔ کہتے ہیں، اے بتو اِسی رو سیاہ کا نام ہے تِرے وعدے کو، بتِ حیلہ جو تِرے وعدے کو، بتِ حیلہ جو نہ قرار ہے، نہ قیام ہے