کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں کچھ ایسے زخم بھی... ♪ یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں ♪ یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں کچھ ایسے زخم بھی... ♪ یہ کربِ تشنہ لبی... یہ کربِ تشنہ لبی اب ہمیں قبول نہیں یہ کربِ تشنہ لبی اب ہمیں قبول نہیں کچھ آج سوچ کے ہم مَے کدے میں آئے ہیں کچھ آج سوچ کے ہم مَے کدے میں آئے ہیں کچھ ایسے زخم بھی... ♪ کوئی ہواؤں سے کہہ دے اِدھر کا رکھ نہ کرے ♪ کوئی ہواؤں سے کہہ دے اِدھر کا رکھ نہ کرے چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں کچھ ایسے زخم بھی... ♪ جہاں بھی ہم نے صدا دی... جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا ♪ جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا "یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں" کچھ ایسے زخم بھی... ♪ اُنھیں پرائے چراغوں سے کیا غرض، اقبالؔ اُنھیں پرائے چراغوں سے کیا غرض، اقبالؔ جو اپنے گھر کے دیے خود بجھا کے آئے ہیں جو اپنے گھر کے دیے خود بجھا کے آئے ہیں کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں کچھ ایسے زخم بھی...