ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا بن گیا رقیب آخر جو تھا رازداں اپنا منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے بارے آشنا نکلا اُن کا پاسباں اپنا دردِ دل لکھوں کب تک؟ جاؤں؟ اُن کو دِکھلاؤں انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا؟ ہم کہاں کے دانا تھے؟ کس ہنر میں یکتا تھے؟ بے سبب ہوا، غالبؔ، دشمن آسماں اپنا ♪ جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا کہتے ہیں، "ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا" رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا لاگ ہو تو اُس کو ہم سمجھیں لگاو جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ؟ یا رب، اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا؟ پوچھتے ہیں وہ کہ، "غالبؔ کون ہے؟" کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا