آئے خدا کرم کر تو کر دے قریب اپنے ابھی تو جینا ہے مجھے پورے کرنے گھر كے سپنے نرم مزاج تھا حالتوں نے بنایا سخت ہے کوئی نہیں سگا میرا دکھایا مجھے وقت نے کوئی میرا سگا نہیں یہاں کس نے میرا حال دیکھا پچیس ہزار کی نوکری کیسے گھر سنبھال لے گا ؟ مانگیں گے چاول تو کیسے ان کو دال دیگا ؟ تجھ سے نہیں پوچھ رہا یہ خود سے ہے سوال میرا خود سے سوال میرا بڑھوں گا میں آگے کیسے پیرو میں کانچ ہے تو سڑکو پہ ہم بھاگے کیسے نشانہ داغْا کیسے تیر کا اتا پتا نہیں ہے پسند ہے پیسہ اس کو ، میری اِس میں خطا نہیں ہے ہاں اس میں وفا نہیں ہے کیوں اِس میں نفع نہیں ہے اسے تو آج تک لگتا ہے رب بھی اس سے خفا نہیں ہے اگر وہ روٹھا نہیں تو دِل میں کیوں سکون نہیں میں بکتا نہیں ہو مجھے بازاروں میں ڈھونڈ نہیں جب آپ کچھ کر نہیں سکتے میرے بارے میں بکو گے ہی سگوں کا ساتھ کیسے چھوڑتے دیکھا سگوں سے ہی تھالی ہے خالی تو غائب سارے جالی لیکن جب بڑھے گی سب سے پہلے تم ہی اسکو چکھو گے بھی عمر تھی سات دیکھے چار جنازے میں نے جھوٹ نہیں بولوں گا بھنڈ مارے ہیں دبا كے میں نے چھوٹی سی عمر میں ہی جلن دیکھی رشتوں میں راشن آتے دیکھا اپنے گھر پہ میں نے قستو پہ تو مجھے سکھا مت کہ زندگی ہے tough کتنی اور نا ہی سکھا مجھے کیسے یہاں پر چلنا ہے میرا کوئی ایم نہیں ہے گھر میں Vigo کھڑی کرنا بس مجھے کسی كے بھی پیسوں پہ نہیں پلنا ہے بہت کچھ یاد آتا ہے تیرے اک یاد آنے سے بھوکا ہی مر جاؤ میں یہ بہتر ہے آس کھانے سے خود سے ناراض ہو کیا لڑوں زمانے سے ؟ کیا ہی تیرے راز کھولوں خود کو کہتا ہو جانے دے قسم سے مجھے میری zone كے نہیں لگتے تم قسم سے مجھے تھوڑے دوغلے بھی لگتے تم کبھی تعریف کرتے کبھی کرتے غیبت سالے سچ بتاؤں تو مجھے ہوش میں نہیں لگتے تم اے خدا میں جب بھی زندگی میں ٹھوکر کھاتا میں سارے کام چھوڑ كے سجدہ کرنے پہنچ جاتا اور جب بھی زندگی یہ بازیاں جیتاتی ہیں میں بھول جاتا ہو تجھے مجھے نیند کیسے آتی ہے ؟ دبایا دُنیا نے تو سیکھا میں نے کڑک بنا ہاں میری خواہش ہے چھوٹی پر وہ جیب پہ کافی بھاری ہے ماں کو کرنا ہے حج اور وہ میری ذمہ داری ہے خوشیاں ساری side کری خواہشوں کو ٹال کر آگے بھرا خود پِھر سب کو دِل سے میں نکال کر کہا آتا جاتا ہے تو خانہ کیوں نہیں کھاتا ہے میں ترس گیا ہو ماں تو پِھر سے واپس اک سوال کر دیکھ نہ زمانے نے یہ کیسا میرا حال کیا ہے قسمت کا بھی پَھڈّا مجھ سے دیکھ کیسا زوال دیا ہے میرا تو سَر ماں اونچائیاں کو چھوتا تھا آج انا کو بھی اپنی میں نے چھ فٹ اندر گاڑ دیا یہ تو وہ دکھ ہے جو بتائے میں نے اب وہ سوچو جو چھپا رہا ہو محفل میں بیٹھو گے تو جانو گے نا مجھے تم ان کی نظر میں تو ہمیشہ برا رہا ہو