نہ رو مولا نہ رو مولا نہ رو مولا نہ رو مولا ايها المظلوم يا ايها المظلوم يا ايها المظلوم نہ رو مولا نہ رو مولا نہ رو مولا نہ رو مولا منھال نے اک دن آ کے کہا اے مولا میرے اے زین العباء غم زیادہ کہاں گزرے تم پر ؟ دل تھام لیا خوں رونے لگے خوں روتے ہوئے بس اتنا کہا الشام الشام الشام منھال ترپ کر کہنے لگا رونے کا سبب مولا ہے کیا میراث شہادت آپ کی ہے مولا نے کہا لا ريب مگر اُف تو نے نہیں انصاف کیا بے شک میراث شہادت ہے یہ آلِ نبی کی فطرت ہے سر بے پردہ ماں بہنوں کا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا؟ الشام الشام الشام منھال میں کیسے زندہ ہوں پل پل جیتا ہوں مرتا ہوں ان آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا؟ الشام الشام الشام آغاز ہے شامِ غریباں سے خوں ٹپکا چشمِ گریاں سے بہنوں کا کھل سر سامنے تھا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا؟ الشام الشام الشام کیسے بھولوں اس منظر کو نیزے پہ پھوپھی کی چادر کو ساحل سے جو غازی نے دیکھا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا ؟ الشام الشام الشام ناموسِ پیمبر بے چادر اور سر پہ برستے وہ پتھر تر خون میں تھا سب کا چہرہ اک یہ بھی میری میراث تھی کیا ؟ شام کے بازار کے اس خوشیاں مناتے ہوئے ہجوم میں یہ سھل ابن سعد ہے اس نے نیزوں پہ سروں کو دیکھا کہ کون آفتاب اور مہتاب ہے؟ سھل ٹکٹکی باندھ کے دیکھ رہا تھا ہر سر کو دیکھتا تھا لیکن جب حسین کے سر کو دیکھا اب نگاہیں وہیں پہ رک گئیں فاطمہ کے بیٹے کے سر سے نظریں نہیں اٹھتیں تھیں اک مرتبہ تڑپا۔ اور تڑپ کے کہنے لگا یا رسول الله! کاش کہ میری آنکھیں اندھی ہو جاتیں میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا کیا دیکھتا ہے۔ کوئی نور والا چہرہ ہے لیکن ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیاں کمر میں لنگر ، گردن میں طوق اور وہ گردن کو جھکائے ہوئے چل رہا ہے قریب آ کے کہنے لگا السلام عليك ايها الأسير! اے قیدی! میرا سلام غریب نے اس مجمعے میں پہلی مرتبہ کسی کو سلام کرتے دیکھا نظریں اٹھائیں کہا نانا کے صحابی تجھ پر بھی میرا سلام پر نانا کا نام آیا سھل تڑپ کر رہ گیا کہا کون ہے؟ کہا نہیں پہچانا؟ میں علی ہوں۔ حسین کا بیٹا فاطمہ کا پوتا ارے میں اکیلا نہیں آیا ہوں میرے ساتھ فاطمہ کی بیٹیاں آئی ہیں بی بی کا سنا ترپ کے دوڑا شہزادی کے اونٹ کے قریب پہنچا سھل نے اپنی آنکھوں کو بند کیا گردن کو جھکائے ہوئے سلام کیا کہا بی بی میں تیرے نانا کا صحابی ہوں اگر غلام کچھ کر سکتا ہے تو مجھے حکم دے آواز آئی اے سھل اگر مہربانی کر سکتا ہے تو ذرا ان نیزوں والوں سے کہہ دے کہ سروں کو لے کر آگے چلے جائیں یہ زمانہ ان سروں کو دیکھے فاطمہ کی بیٹیوں کے کھلے سروں کی طرف زمانے کی نگاہیں نہ جائیں نہ غم طوق و زنجیر کا تھا نہ غم طوق و زنجیر کا تھا غم پھوپھیوں کا ہمشیر کا تھا بازار کے غم نے مار دیا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا ؟ الشام الشام الشام الله میرے یہ حدِ ستم پہروں تھے کھڑے دربار میں ہم اور تخت پہ قاتل بیٹھا تھا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا ؟ الشام الشام الشام اک شام کا اک زندان کا غم معصوم سی ننھی جان کا غم جو ہو نہ سکی مر کے بھی رِہا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا ؟ الشام الشام الشام ریحان و سرور شام چلو اور شام کی وہ گلیاں دیکھو بیمار جہاں کہتا ہی رہا اک یہ بھی میری میراث تھی کیا ؟ ايها المظلوم يا ايها المظلوم يا ايها المظلوم