یہ لوگ، پتھر کے دل ہیں جن کے، نمائشِ رنگ میں ہیں ڈوبے ♪ یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا اِنھیں کوئی کاش یہ بتا دے، مقام اونچا ہے سادگی کا ♪ اِنھیں بھلا زخم کی خبر کیا کہ تیر چلتے ہوئے نہ دیکھا اداس آنکھوں میں آرزوؤں کا خون جلتے ہوئے نہ دیکھا اندھیرا چھایا ہے اِن کے آگے حسین غفلت کی روشنی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا ♪ یہ صحنِ گلشن میں جب گئے ہیں، بہار ہی لوٹ لے گئے ہیں جہاں گئے ہیں، یہ دو دلوں کا قرار ہی لوٹ لے گئے ہیں کہ دل دکھانا ہے اِن کا شیوہ، اِنھیں ہے احساس کب کسی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا میں جھوٹ کی جگمگاتی محفل میں آج سچ بولنے لگا ہوں میں ہو کے مجبور اپنے گیتوں میں زہر پھر گھولنے لگا ہوں یہ زہر شاید اڑا دے نشہ غرور میں ڈوبی زندگی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا اِنھیں کوئی کاش یہ بتا دے، مقام اونچا ہے سادگی کا یہ کاغذی پھول جیسے چہرے...