یوں دور جانے والے، کیا پیار نہ رہا؟ میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا یوں دور جانے والے، کیا پیار نہ رہا؟ میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا کیا ستم ہے یہ؟ کیا ہے بے بسی؟ ظالم بڑی تیری بے حسی تجھے روکنے کا خیال ہے پر جینے پہ ملال ہے دل کو اب تڑپنے پر انکار نہ رہا میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا یوں دور جانے والے، کیا پیار نہ رہا؟ میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا ♪ کتنا بھروسہ تم پہ کیا تھا چھوڑو گے نہ ساتھ میرا جانے مجھے کیوں لگتا ہے ہاتھوں میں ہے ہاتھ تیرا ہاتھوں میں ہے ہاتھ تیرا تیری بے رخی کا بھی اظہار نہ رہا میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا یوں دور جانے والے، کیا پیار نہ رہا؟ میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا ♪ میں جانوں یا رب ہی جانے کیسے کٹا یہ سفر کتنی دفا ہم ٹوٹ کے بکھرے پھر جا کے آیا صبر یہ راستہ کٹھن تھا پر دشوار نہ رہا میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا یوں دور دور جانے والے، کیا پیار نہ رہا؟ میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا پھر سے رشتہ کیسے جوڑوں جن سے کبھی انجان ہوا میں نے خود کو کر دیا تنہا اپنو میں مہمان ہوا پھر سے رشتہ کیسے جوڑوں جن سے کبھی انجان ہوا میں نے خود کو کر دیا تنہا اپنو میں مہمان ہوا اپنو میں مہمان ہوا شکوے کیا کروں میں، تُو حق دار نہ رہا تیری وفا پہ مجھ کو اعتبار نہ رہا یوں دور جانے والے، کیا پیار نہ رہا؟ میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا بہت دور دور جانے والے، کیا پیار نہ رہا؟ میری وفا پہ تجھ کو اعتبار نہ رہا