فخر نہیں کرو کھیل ہے یہ سمجھ لو یہاں جیتوں یا نہیں جانا ہے ہم نے وہیں جانا ہے ہم نے وہیں ذرہ ہو یا زمین خواہش ہو یا تقدیر سمندر ہو یا ایک قطرہ سہی جانا ہے ہم نے وہیں جانا ہے ہم نے وہیں سوچا ہے کیا کبھی بکھرے گی جب یہ زمین درخت، پہاڑ، کائنات بھی کچھ بھی نا ہوگا کہیں سوچا ہے کیا کبھی جانا ہے ہم نے وہیں عالیشان تصویر ہو تم یا اڑتے کاغذ کا جَہاز کوئی رُتبَہ یہاں کچھ بھی نہیں جانا ہے ہم نے وہیں جانا ہے ہم نے وہیں سوچا ہے کیا کبھی بکھرے گی جب یہ زمین تارے سب ٹوٹ جائیں گے خواب پهر رنگ نا لا پاہیں گے سوچا ہے کیا کبھی جانا ہے ہم نے وہیں کیوں نہیں سمجھ پاہیں ہم یہ دنیا ہے فانی ہمارے ہاتھ ہیں خالی بندے کا خیال کر شاید بات بن جانی سوچا ہے کیا کبھی جانا ہے ہم نے وہیں