سکینہ مر گئی ھائے سکینہ مر گئی زندان میں جب یہ شور اُٹھا الم پہ درد تھا اُس دم ہر ایک کا چہرہ قریبِ لاشۂِ ہمشیر بھائی جب پہنچا بندھے تھے ہاتھ بدن خوف سے لرزتا تھا نہ اُٹھ سکا جو جنازہ بہن کا بھائی سے تو رو کے بیٹے سے سجاد پھر یہ کہنے لگے کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں زنجیر اٹھاؤ تم میری اور اس کی لاش اُٹھاؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں دادا نے بڑی مظلومی میں تھا دادی کو دفنایا لیکن وہ مدینہ تھا باقر اور یہ ہے دیس پرایا اس چار برس کی دارو کو غربت میں کہاں دفناؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں جو پونچھیں بھری تھی مادر کی نظروں سے چُھپا دی میں نے اک لال سی تھی جو گردن میں رسی وہ ہٹا دی میں نے گردن پہ بنے جو رسی سے کیسے وہ نیل چُھپاؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں مل جائیں اگر واپس مجھ کو وہ تیری رِدا اور چادر بابا کی لحد پر رکھ دوں یا صغریٰ کو دوں واپس لا کر وہ دونوں امانت ہیں تیری بتلا دے کسے پہنچاؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں جب تم کو رہائی مل جائے پھوپھیوں کو وطن پہنچانا رہ لیں گے یہیں ہم بھائی بہن تم قافلہ گھر لے جانا دفناتے ہوئے اس بچی کو زنداں میں اگر مر جاؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں دونوں کو جدا میں کیسے کروں ہمت ہی نہیں یہ میری ہائے آپ کے سر سے لپٹی ہوئی بے جان یہ آپ کی بیٹی کیا ساتھ سکی نہ دے بابا سر آپ کا بھی دفناؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں تعویزِ لحد کو بند کیا عابد نے یہ کہہ کر اکبر کہہ دو یہ حرم سے اے باقر سب روئیں یہاں پر آ کر تربت پہ چھڑکنے کی خاطر اب پانی کہاں سے لاؤں میں کر مدد میری باقر بیٹا ہمشیر کی قبر بناؤں میں