نبی کے نواسے حسین ابن حیدر نبی کے نواسے حسین ابن حیدر لڑکپن کا وعدہ نبھانے چلے ہیں سوۓ کربلا وہ ۷۲ کو لے کر رضائے خدا سر کٹانے چلے ہیں وہ دلدل پہ دیکھو شہادت کی دھن میں چلے تیغ کے کر کے شیر خدا کی شیر خدا کی اکیلے وہ رن کی طرف اللہ اللہ اکیلے وہ رن کی طرف اللہ اللہ لعینوں کی ھستی مٹانے چلے ہیں نبی کے نواسے حسین ابن حیدر لڑکپن کا وعدہ نبھانے چلے ہیں وہ گھر سے نکل کر مدینے کے باہر کھڑے کہہ رھے ہیں یہ زہرہ کے جانی زہرہ کے جانی لعینوں سے کہہ دو کہ امت کی خاطر حسین اپنے گھر کو مٹانے چلے ہیں نبی کے نواسے حسین ابن حیدر لڑکپن کا وعدہ نبھانے چلے ہیں جدھر دیکھیئے موت کا ھے اندھیرا یہ رو رو کے کہتا ھے دل آج میرا دل آج میرا ہزاروں کے نرغے میں شبیر تنہا لہو اپنے دل کا بہانے چلے ہیں نبی کے نواسے حسین ابن حیدر لڑکپن کا وعدہ نبھانے چلے ہیں عتیق ابنِ حیدر کا سینے میں غم ھے جب ہی فرحان میری آنکھوں میں نم ھے آنکھوں میں نم ھے وہ زہرہ کے پیارے، علی کے دلارے ہے وقتِ عمر سر جھکانے چلے ہیں نبی کے نواسے حسین ابن حیدر لڑکپن کا وعدہ نبھانے چلے ہیں سوۓ کربلا وہ ۷۲ کو لے کر رضائے خدا سر کٹانے چلے ہیں