کروں میں شکوہ یا کہوں میں شکریہ ہنسی نمی بن گئی اشک پھر مسکرا دیا سانس لینا بھی سزا، دھڑکے دل بے وجہ جینا اتنا بھی آساں تو نہ تھا رستے بھی تھے جدا، منزل بھی لاپتہ لا ملایا کہاں سے پھر خدا آ ملے ہو یوں ہی یا پھر یوں ہی آ ملے ہو آ ملے ہو یوں ہی یا پھر یوں ہی آ ملے ہو دور ہم دو قدم تھے کہیں دو قدم پہ بھی ملے تم نہیں تم بھی نہیں، اب وہاں میں بھی نہیں پر سب پڑا ہے وہیں کا وہیں وہی دن، وہی شام اور وہی رات وہی ہے لبوں پہ ادھوری بات جہاں جم گئے تھے سب پہر پھر وہیں سے ہونی ہے شروعات آ ملے ہو یوں ہی یا پھر یوں ہی آ ملے ہو آ ملے ہو یوں ہی یا پھر یوں ہی آ ملے ہو