زائر کوئے جناں آہستہ چل دیکھ آیا ہے کہاں آہستہ چل جیسے جی چاھے جہاں میں گھوم پھر یہ مدینہ ہے یہاں آہستہ چل نقشِ پائے سرور کونین کی ہر طرف ہے کہکشاں آہستہ چل حاضری میں ہیں ملک ستر ہزار قُدسیوں کے درمیان آہستہ چل بارگاہِ ناز میں آہستہ بول ہو نہ سب کچھ رائیگاں آہستہ چل در پہ آیا ہوں بڑی مُدت کے بعد اے میری عمرِ رواں آہستہ چل جالیوں کے سامنے جلدی نہ کر وہ ہیں مہرباں آہستہ چل