اجنبی ہیں کبھی جاگتی سی راتیں بے تُکی سی ساری دِل بہلانے والی باتیں کچھ نہیں ہے یہاں اگر تُو نے نہیں آنا۔ ڈر یہی ہے کہ مجھکو نہ بُھلانا ایسے نہ بُھول جانا مجھکو نہ بُھلانا بس ایسے نہ بُھول جانا خوش نصیب ہیں تیرے شہر کی ہوائیں جب کبھی بھی چاہیں گال تیرے چھوتی جائیں وہاں کی بھیڑ میں کہیں تُم کھو نہ جانا۔ ڈر یہی ہے کہ مجھکو نہ بُھلانا ایسے نہ بُھول جانا مجھکو نہ بُھلانا بس ایسے نہ بُھول جانا اِس جہاں میں اگر ہم تُم مل نہ پائے اُس جہاں میں جاکے تجھکو ہی ہے پانا ایسے نہ بُھول جانا مجھکو نہ بُھلانا بس ایسے نہ بُھول جانا