میری پلکوں کو مت دیکھو اِن کا اٹھنا، اِن کا جھپکنا جسم کا نا محسوس عمل ہے میری آنکھوں کو مت دیکھو اِن کی اوٹ میں شامِ غریباں اِن کی آڑ میں دشتِ ازل ہے میرے چہرے کو مت دیکھو اِس میں کوئی وعدۂ فردا اِس میں کوئی آج نہ کل ہے ♪ اب اُس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں اُس سینے سے لو نہ لگاؤ جس کی نبضیں چھوٹ چکی ہیں ♪ اب میرے قاتل کو چاہو اب میرے قاتل کو چاہو میرا قاتل مرہم مرہم دریا دریا، ساحل ساحل قاضئ شہر کا ماتھا چومو جس کے قلم میں زہرِ ہلاہل جس کے سخن میں لحنِ سلاسل اب اُس رقص کی دھن پر ناچو ♪ جس کی گت پر لٹ گیا قاضی جس کی لَے پر بک گیا قاتل بک گیا قاتل بک گیا قاتل میری آنکھوں کو مت دیکھو