تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے، اے ارضِ وطن جو تِرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں؟ کتنی آہوں سے کلیجہ تِرا ٹھنڈا ہوگا؟ کتنے آنسو تِرے صحراؤں کو گلزار کریں؟ ♪ تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوئے کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی خواب کتنے تِری شہ راہوں میں سنگسار ہوئے بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا جو مجھ پہ گزری مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا مبادا ہو کوئی ظالم تِرا گریباں گیر لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا ♪ ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم ہم تو مہماں ہیں... ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے ہمارا کیا ہے ہمارا کیا ہے