نئے موسم کھلی آنکھوں میں اپنے خواب لکھتے ہیں نئے موسم کھلی آنکھوں میں اپنے خواب لکھتے ہیں رگوں کے سرد سناٹے لہو کی سرسراہٹ میں پگھلتے ہیں نئے موسم کھلی آنکھوں میں اپنے خواب لکھتے ہیں ♪ کہ جن کے ریشمی جسموں کے سندیسے بدن میں خواہشوں کے بادباں کھولے کہیں دھندلے جزیروں میں وہ روشن پھول کِھلتے ہیں ♪ کھلی آنکھوں میں روشن پھول لہرائیں تو ہم گھر سے نکل آئیں کہ وہ بانہوں کی صورت کھینچ لے ان کو ترستے راستوں سے زندگی پائیں ہری شاخیں ہمیں چھونے کو جھک آئیں تو ہم پاگل ہوا کی سیٹیوں کا بھید بن جائیں نئے موسم کھلی آنکھوں میں اپنے خواب لکھتے ہیں نئے موسم کھلی آنکھوں میں اپنے خواب لکھتے ہیں