فاصلے بڑھتے گئے چہرے یہ پڑھتے رہے بانہوں میں لیے اِن خوابوں کو اِن کانٹوں پہ چلتے رہے زخم خود بھرتے رہے لہروں سے کرتے گلے ڈوبے ہیں صرف تیری خاطر ہم وہ جام آگے کرتے رہے لہجے تو کافی ہیں شاید تیرے عادی ہیں سمندر یہ لفظوں کا جیسے وہ بہتے ہوئے ساقی ہیں تُو لہو بھی، رگ رگ سے واقف بھی جذبِ رقابت سے طاقت بھی حکمت بھی اور ہے نزاکت بھی نہ جانے تُو کتنوں کی چاہت تھی مجھے تیری عادت سی مجھے تیری عادت سی لگے سب بناوٹ ہی لے ڈوبی یہ چاہت ہی مجھے تیری عادت سی مجھے تیری عادت سی لے ڈوبی یہ چاہت ہی مجھے تیری عادت سی کیا یہ جشن میری ہار کا ہے؟ سارے لوگ مجھ سے خار کھائے کیا یہ خواہشوں کا مارکہ ہے؟ یا اثر تیرے زہر کا ہے؟ وہی گلے، وہی شکوے بے قراری جب نہ دکھتے تیرے حسن کی تعریفوں میں ہی بکھرے دل کش، دل نشیں، کیا کیا لکھتے شامیں آدھی ہو چکی، وہ باتیں یاد رہیں کیا کروں تیرے لیے اب میں بات بڑی دن تو گزر جاتے، لگتی ہر ایک رات بڑی جلاتے ہیں اِس زمانے کو وہ آگ بھری اشکوں سے دریا یہ بھر گئے سمجھے ہم لہروں سے ڈر گئے نہ چاہتے ہوئے بھی بچھڑ گئے پھر سے تم منہ پہ مکر گئے مجھے تیری عادت سی مجھے تیری عادت سی لگے سب بناوٹ ہی لے ڈوبی یہ چاہت ہی مجھے تیری عادت سی مجھے تیری عادت سی لے ڈوبی یہ چاہت ہی مجھے تیری عادت سی مجھے تیری عادت سی مجھے تیری عادت سی لگے سب بناوٹ ہی لے ڈوبی یہ چاہت ہی مجھے تیری عادت سی مجھے تیری عادت سی لے ڈوبی یہ چاہت ہی مجھے تیری عادت سی